ہر کام کا ایک مقصد ہوتا ہے، اس میں لازمی طور
پر دو چیز ہوا کرتی ہیں ۔ ایک چیز تو وہ جس کے لیئے کام کیا جاتا ہے، اور دوسری
چیز اس کی خاص شکل ہے جو اس مقصد کو حاصل کرنے کے ليئے اختیار کی جاتی ہے، آج
ہماری عبادتیں کیوں بے اثر ہو گئی ہیں، آج کی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ ہم نے روزے
کے ارکان اور اس کے ظاہر صورت کو ہی اصل عبادت سمجھہ رکھا ہے جس نے یہ ارکان ادا
کردیے اس نے بس اللہ کی عبادت کردی۔ جو روزہ دار صبح سے شام تک اللہ کی عبادت میں
مشغول رہتا ہے وہ عین اس عبادت کی حالت میں جھوٹ کیسے بولتا ہے؟ غیبت کس طرح کرتا
ہے؟ بات بات پر لڑتا کیوں ہے اس کی زبان سے گالیاں کیوں نکلتی ہیں؟ وہ لوگوں کا حق
کیسے مارتا ہے؟ حرام کھانے اور حرام کھلانے کا کام کس طرح کرتا ہے؟ اور پھر یہ سب
کام کرکے یہ کیسے سمجھتا ہے کہ اس نے خدا کی عبادت کی ہے؟
رمضان کے بعد پھر بے
قیدی
360 گھنٹے خدا کی عبادت کرنے کے بعد جب ہم فارغ ہوتے
ہیں تو اس پوری عبادت کے تمام اثرات شوال کی پہلی تاریخ ہو کو کا فور ہوجاتا ہے،
ہندو جو اپنے تہوار میں کرتے ہیں وہ سب ہم اپنے عید میں کرتے ہیں، ہم میں سے کتنے
ایسے ہیں جن کے اندر عید کے دوسرے دن بھی تقوی اور پرہیزگاری کا کوئي اثر باقی
رہتا ہے؟ خدا کے قوانین میں کون سی کسر اٹھا رکھی جاتی ہے؟ نیک کاموں میں کتنا حصہ
لیا جاتا ہے اور نفسیات میں کتنی کمی آجاتی ہے؟
مقصد زندگي – بندگئی
رب
اسلام کا اصل مقصد انسان کی پوری زندگی کو اللہ
کی عبادت بنادینا ہے، انسان بندہ پیدا ہوا ہے اور بندگي اس کی عین فطرت ہے۔ اس
لیئے عبادت یعنی بندگی سے ایک لمحہ کے لیئے بھی آزاد نہ ہونا چاہیئے اللہ کی خوشی
کس چیز میں ہے اور اس کا غضب اور ناراضگي کس چیز میں ہے اسے معلوم ہونا چاہیئے، اس
کے غضب والے کاموں سے اس طرح بچے جس طرح آگ سے بچتا ہے۔ جو طریقہ اس نے پسند کیا
ہے اس پر چلنا چا ہیئے اور جو نا پسند کیا ہے اسے چھوڑ دینا چاہیئے۔ جب انسان ساری
زندگی اس رنگ میں رنگ جائے تب سمجھو اس نے
اپنے مالک کی بندگي کا حق ادا کیا اور
" وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون" کا منشا پورا ہو گيا
No comments:
Post a Comment